چند لوگ پیدا صرف اس لئے ہوتے ہیں کہ وہ خلق خدا
کا انسانیت پر سے ایمان نہ اٹھنے دیں۔ ایسے ہی ایک نفیس، مخلص اور مثالی انسان سے
دوستی کا مجھے بھی شرف حاصل رہا۔ وہ مختصر سا طویل عرصہ جس دوران اس دوست سے صحبت
رہی، کافی تھا یہ جاننے اور سمجھنے کے لئے کہ اس دینا میں صرف مطلبی، کمینے اور بے
حس لوگ ہی نہیں بستے۔
گو کہ سترہ اکتوبر کو ہمارے عزیز دوست رانا امتیاز
احمد تو
اچانک اس جہان فانی سے کوچ کر گئے، مگر جاتے جاتے اچھی یادوں کا ایک ایسا ذخیرہ چھوڑ گئے جو رہتے دن تک ہماری ذندگی میں روشنی کی کرنیں بکھیرتا رہے گا۔
اچانک اس جہان فانی سے کوچ کر گئے، مگر جاتے جاتے اچھی یادوں کا ایک ایسا ذخیرہ چھوڑ گئے جو رہتے دن تک ہماری ذندگی میں روشنی کی کرنیں بکھیرتا رہے گا۔
یہ قصہ ہے اکتیس دسمبر دو ہزار گیارہ کی رات کا،
جب نئے سال کی خوشیاں سمیٹنے کے بعد میں، رانا صاحب اور خالد صاحب دوبئی کے مرکز
میں ایک ایسی جگہ پھنس گئے، جہاں تمام سڑکیں بند تھیں اور ہمارے لئے گاڑی یا ٹیکسی
پہ ہوٹل واپس آنا ممکن نہیں تھا۔
میں نے سوچے سمجھے بغیر کہا جناب ہوٹل ذیادہ دور
نہیں، پیدل ہی چلتے ہیں۔ اور ہنستے ہنستے ان دونوں کو چلنے پہ راضی کر لیا۔ ہوٹل اتنا
بھی قرہب نہیں تھا جتنا میں نے باور کرانے کی کوشش کی تھی۔ قصہ مختصر ہم تینوں چل
تو پڑے، مگر قریب تین کلومیٹر کا فاصلہ تے کرنے کے بعد معلوم پڑا کہ ہوٹل تو شائد
بہت ہی دور تھا، کیونکہ تا حد نظر سوا ریگستان کے کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔
یہاں تک پہنچتے پہنچتے پیدل ہوٹل جانے کے بارے
میں میرے دلائل بھی کمزور پڑ چکے تھے۔ جیسے تیسے ہم قریبی پٹرول پمپ تک پہنچے اور
ٹیلیفوں کر کے ٹیکسی منگوائی۔ ٹیکسی کا انتظاز کرتے ہوئے رانا صاحب نے مجھے مخاطب
کر کے، مسکراتے ہوئے کہا ’باجی نسرین اگر صبح میرے پاوں میں چھالے ہوئے تو تمھارے
یہ لمبے بال کاٹ دینے ہیں، بلکہ تمھیں گنجا کر دینا ہے۔‘
میرے بال تو آج بھی لمبے ہیں مگر بصد افسوس وہ
مسکراتا ہوا چہرہ جو اِن بالوں کے لئے خطرہ بن سکتا تھا، اب اوجھل ہو گیا ہے۔
رانا صاحب کے ساتھ گزشتہ برسوں کی صحبت نے بہت
کچھ سیکھنے کا موقعہ فراہم کیا، مگر ان تمام یادوں کو تحریر کرنا میرے بس میں
نہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آج میں اردو میں یہ ستریں لکھ رہا ہوں تو اس کا
سہرا بھی رانا امتیاز صاحب کے سر ہے۔
گو کہ میں بھی پاکستان میں پیدا ہوا ہوں اور
سکول کا دور پاکستان میں ہی گزرا۔ اردو لکھنا اور پڑھنا سکول میں سیکھا تھا، مگر
گزشتہ دو دہائیوں سے ذیادہ عرصہ تک صرف انگریزی اور روسی زبانوں میں لکھتے رہنے کی
وجہ سے، کچھ یقین نہیں تھا کہ میں آئندہ کبھی اردو میں اپنے خیالات تحریر کر سکوں۔
مگر رانا صاحب نے بار بار اسرار کیا اور مجھے مجبور کیا کہ میں اردو میں لکھنے کی
کوشش کروں۔ اور آج میں یہ سطور رقم کرتے ہوئے تہ دِل سے اپنے دوست کا شکرگزار ہوں،
جِس نے مجھے اپنی مادری زبان کی طرف راغب کیا۔
رانا صاحب کی اردو کے لئے خدمات صرف مجھے گھر کی
طرف لانے پہ محدود نہیں۔ وہ تمام برس جو رانا صاحب نے دیارِ غیر میں گزارے، ان کے
دوران وہ ہمیشہ اردو ادب کی اپنے تئیں خدمت کرتے رہے۔ ان کی اس کاوش سے وہ لوگ
بخوبی واقف ہیں جنہیں جاپان میں ان ادبی محافل میں شرکت کا شرف حاصل ہوا، جن کے
انعقاد کو رانا صاحب نے ممکن بنایا۔
اکثر اوقات دوران گفتگو رانا صاحب مشہور شعرا
اور ادیبوں کے دلچسپ قصے سنایا کرتے تھے۔ دل تو بہت کرتا ہے کہ آپ کے ساتھ رانا
صاحب کے سنائے ہوئے واقعات شیئر کروں، مگر خیال آتا ہے کہ شائد یہ ٹھیک نہ ہو گا،
کیونکہ ان میں سے بہت سی باتیں پس پردہ ہی رہیں تو اچھا ہے۔
لیکن شیو کمار بٹالوی کے چند اشعار ضرور شیئر
کروں گا۔ اور ہاں اِس عظیم شاعر کے فن سے بھی مجھے رانا صاحب نے ہی متعارف کرایا
تھا۔
سخر دوپیر سِر تے،
میرا ٹل
چلیا پرچھاںواں
قبراں اڈیک دیاں مینوں،
جوں
پتراں نوں ماواں
ذندگی دا تھل تپدا
کلے رکھ دی ہوند وچ میری
دکھاں والی گھیر چڑھی
وگے غماں والی تیز ہنیری
میں وی کیہا رکھ چندرا
جینوں کھا گئیاں اودھیاں چھاواں
قبراں اڈیک دیاں
مینوں
جوں پتراں نوں ماواں
No comments:
Post a Comment
You are free to comment, without logging-in. But please do spare me the effort of not approving your ads.