Search This Blog

Thursday, 13 October 2016

میں اور بچہ جمورا



ہمارے بچپن میں زرائع تفریح کی تعداد بہت محدود تھی۔ ریڈیو ٹی وی کچھ گھروں میں اگر تھے بھی تو گھر کے بڑوں کا ان پر کڑا کنٹرول ہوا کرتا تھا، کہ کہیں ان بے جان آلات کی بھینٹ چڑھ کے بچے بیراہ روی کا شکار نہ ہو جایئں۔


بڑے شھروں میں سال میں ایک آدھ دفع سرکس کا انعقاد تمام بچوں کی تفریح کا باعث بنتا، لیکن سرکس ایک ایسی فضول خرچی تھی جو ہر شخص کی پہنچ میں نہ تھی۔ قصہ مختصر ہمارے بچپن میں تمام وہ کھیل کھیلے جاتے تھے جن کے لئے کوئی خاص وسائل درکار نہ ھوں ۔ اب میں آپ کو ان بھاگنے دوڑنے اور چھپنے والے کھیلوں کے نام نہیں بتاؤں گا۔ اگرآپ ان کھیلوں کے نام نہیں جانتے تو براہ مہربانی ’انکل گوگل‘ سے رابطہ فرمائے، چونکہ اگر آپ ان کھیلوں سے واقف نہیں تو آپ کا تعلق عہد گوگل سے ہے۔
بہر حال ان کھیلوں کے علاوہ ھمارے لئے تفریح کا وسیلہ وہ مداری ہوا کرتے تھے جو کبھی کبھار اپنے بندر یا ریچھ کے ہمراہ ھماری گلی سے گزرتے تھے۔ گو کہ ان مداریوں کا تماشا بھی مفت نہیں ہوا کرتا تھا، لیکن سرکس کے بر عکس ان مداریوں کی اقدار ذیادہ جمھوری تھیں۔ یہ تماشہ دیکھنے کے لئے، پیسوں کا ہونا لازمی نہیں تھا۔ اظہار قدردانی کی خاطر آپ انہیں آٹا، کھانا، کپڑے یا کوئی بھی دوسری چیز دے سکتے تھے۔ حد تو یہ تھی کہ متذکرہ مداری جہاں اور جب چاہتے تماشہ لگا لیتے۔ یہاں تک کہ کئی دفعہ اس تماشے سے انہیں تالیوں کے سوا کچھ نہ ملتا۔ لیکن شائد مداریوں کے لئے پیسے کی وقعت تماشے سے کم تھی۔
اس تماشے کے کامیاب انعقاد کے لئے جن چیزوں کی ضرورت تھی ان میں سر فہرست ایک عدد بندر یا ریچھ تھا۔ اس کے علاوہ ایک بکری، ڈگڈگی، ڈنڈے اور رسی کا شمار اس تماشے کے لوازمات میں ہوتا تھا۔
ذیادہ تر یہ مداری دن کے دوسرے اود تیسرے پہر آیا کرتے تھے۔ یہ لوگ کاروبار کی اچھی سمجھ بوجھ رکھتے تھے۔ اس بات کا پتہ ایسے چلتا ہے کہ اگر یہ مداری صبح کے وقت آتے تو تماشہ دیکھنے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی، چونکہ اس تماشے کا اصل ٹارگٹ تو بچے تھے، جو کہ صبح کے وقت حصول تعلیم میں مصروف ہوتے تھے۔ پس ثابت ہوتا ھے کہ مداری تماشہ کرنے کے علاوہ کاروباری منصوبہ بندی کے بھی ماہر ہوا کرتے تھے۔
جن چیزوں کا میں نے پہلے ذکر کیا ان کے علاوہ اس تماشے کا ایک اور اہم عنصر بھی تھا۔ اور شائد بندر کے بعد سب سے اہم عنصر یہی تھا۔ حالانکہ جب آپ تماشہ دیکھ رہے ہوتے تھے اس وقت ایسا لگتا تھا کہ مذکورہ عنصر غیر ضروری ہے۔ بہر حال اس عنصر کے بغیر تماشہ سجتا بھی نہیں تھا۔ کامیاب تماشے کے اس اہم جزو کا نام تھا ''بچہ جمورا'' ۔
اب آپ سوچتے ہونگے کہ میں نے یہ سب کیوں بتایا، کیونکہ کھیلوں کے ناموں کی طرح یہ تمام تفصیلات بھی انکل گوگل مہیاء کر سکتے تھے۔ لیکن جناب مجھے یہ بندر کا تماشہ اور بچہ جمورا اس وقت یاد آئے جب میں پاکستانی نجی ٹی وی کی نشریات دیکھ رہا تھا۔ حیرانگی کی بات ہے کہ ہر چینل پہ کوئی نہ کوئی مداری اپنے بچے جمورے کے ساتھ تماشہ لگائے بیٹھا ہے۔ بچپن کے تماشوں اور ان کھلواڑوں میں فرق صرف یہ ہے کہ اُس بندر کے تماشے میں صرف بچہ جمورا ہوا کرتا تھا، لیکن اِس جدید تماشے میں کہیں بچہ جمورا ہے تو کہیں بچی جموری۔
اس کے علاوہ بڑا فرق یہ ہے کہ اب یہ تماشہ دیکھنے کے لئے گھر سے باہر نہیں جانا پڑتا۔ کسی گھر میں اہل خانہ چڑیا والی سرکار اور بچے جمورے کے تماشے سے لطف اندوز ہو رہے ھیں تو کہیں چوراہے کے باسی اور بچی جموری مصروف مشغلہ ھیں۔ کہیں سازش کے ڈاکٹر اور بچی جموری ہیں تو کہیں  بچہ جمورا نقطہ نظر سمجھانے میں مصروف ہے۔ یہ فہرست تو کبھی نہ ختم ہونے والی ہے۔
کتنی عجیب بات ہے کہ وہ لوگ جنہیں ہم  دانشور کہتے اور سمجھتے ہیں وہ اس قابل بھی نہیں کہ کوئی اچھا پروگرام آئیڈیا ہی سوچ لیں۔ تمام لوگ ایک ہی انداز میں تماشہ لگائے بیٹھے ھیں۔ جن لوگوں کی تخلیقی صلاحتیں   اتنی محدود ھیں وہ قوم کی فکری بیداری میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
اور تو اور اکثر ان کاانداز گفتگو بھی ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ جب ان کے تماشوں کی شکل ایک جیسی ہے تو پھر اس تماشے کے مواد کی کیا بات کرنی۔ جو کل کسی کے جمورے تھے آج وہ مداری ہیں اور بصد افسوس جو آج ان کے جمورے اور جموریاں ہیں یہ کل کو بڑے مداری ہوں     گے ۔ کیا ھماری قوم اس غریب کے بچے کی طرح ہے جو چاہے نہ چاہے بندر کا تماشہ دیکھنے پہ مجبور ہے چونکہ اس کی ذندگی میں معیاری تفریح ناپید ہے؟
ویسے میں بھی بلاوجہ اتنے معتبر دانشواران کو الٹی سیدھی باتیں بول گیا۔ ان بیچاروں کا کیا قصور ہے۔ یہ بچپن میں اپنے گاؤں اور قصبوں کے گلی کوچوں میں آٹے کا پیالہ دے کے بندر کا تماشہ دیکھتے  ہونگے۔ ان کو تماشہ اچھا لگتا ہو گا اور ہو سکتا ہے کہ چڑیا طوطے والی ان سرکاروں کا خواب ہو کہ وہ بڑے ہو کے شہر جا کے نئی قسم کا تماشہ منعقد کریں۔ لیکن شائد جسمانی نااہلی کے باعث مذکورہ اشخاص اصل بندر کا تماشہ تو نہ کر سکے لیکن بحیثیت اصحاب دانش انہوں نے ٹی وی پر یہ نیا تماشہ شروع کر دیا جس کا نام ہے میں اور بچہ جمورا۔

رضا علی۔
Top of Form
Bottom of Form



No comments:

Post a Comment

You are free to comment, without logging-in. But please do spare me the effort of not approving your ads.