Search This Blog

Saturday, 15 October 2016

لے ان کہی دا ناں


جب آپ اندھیرے میں اپنی عینک ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، تاکہ موم بتی جلا کر اپنی ذندگی کو روشن و رخشاں، نیر و تاباں کر لیں، تو سب سے پہلے آپ کے منہ سے گالی نکلتی ہے اس ریاست، اس کے اداروں اور عہدیداران، کو جو ستر برس بعد بھی بجلی کی پیداوار میں خود کفیل نہ ہو سکی۔
محب وطن پاکستانی ہونے کی نسبت، آپ الطاف حسین کے بر عکس پاکستان مردہ باد کا نعرہ تو نہیں لگاتے۔ مگر جناب ایک انسان ہونے کی نسبت آپ کے منہ سے برجستہ نکل جاتا ہے کہ ’ تمھاری میں ماں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘ اور آداب گفتگو کو مد نظر رکھتے ہوئے جس لفظ کو میں نے سینسر کی نظر کر دیا، وہ اس خالی لائن سے کہیں بڑا ہے۔
ایک عام پاکستانی کے ذخیرہ الفاظ میں سب سے ذیادہ تعداد گالیوں کی ہوتی ہے، چونکہ صاحب ہر چیز کی تو قلت ہے ملک میں۔ اور آپ خود ہی سوچئے کیا اچھا لگتا ہے کہ انسان ہر قلت کے جواب میں ایک ہی گالی بکے؟
 خدا کا شکر ہے کہ گالیوں میں خود کفالت ہر شہری کی ذاتی کاوش پہ منحصر ہے، ورنہ ہمارے ہاں یا تو گالیاں راشن کارڈ پہ میسر ہوتیں یا گالیوں کی بھی لوڈشیڈنگ ہوتی۔
ذندگی اجیرن کر دی ہے ان ملک چلانے والوں نے۔ ہماری گالیوں کی تعلیم ہے کہ ختم ہونے کو ہی نہیں آتی۔ دیکھئے نا پہلے صرف واپڈا کی عزت افزائی کے لئے تعلیم لینی پڑتی تھی مگر اب بہت سے امیدواران ہیں حصول عزت کے۔ مثلآ ابھی موسم سرما کا آغاز ہے۔ اب جناب پایئپوں میں گیس منجمد ہو جائے گی۔ آپ صبح سات سے شام سات بجے تک سوئی گیس والوں کی والدہ، ہمشیرہ اور دختر نیک اختر کو یاد کریں گے۔ اور اس دوران آپ جوش خطابت میں گدھوں اور کتوں کو ان خواتین کی ذندگی کا اٹوٹ انگ بنا دیں گے۔
حضرات یہ قومی قلت کی فہرست صرف بجلی اور گیس پہ محدود ہوتی تو شائد ہم اپنی ذندگی میں سوا گالیوں کے کچھ اور بھی سیکھ لیتے۔ کیا کریں معصوم سی جان ہے اور لاتعداد طلبگار ہیں عزت افزائی کے۔
اس مملکت خداداد میں ٹماٹر پیاز کی قلت ہے۔ اسی لئے تو ہم بھارت سے ’گنڈے‘ لینے پہ مجبور ہیں۔ ہر مہینے کی آخری تاریخ کو تمام شہروں میں پیٹرول کی قلت ہو جاتی ہے اور ہم سمجھدار اور غیور شہری ہونے کی نسبت پیٹرول پمپ کے آس پاس کھڑے ہو کے وزیر اعظم اور پمپ کے مالک کی والدہ اور ہمشیرہ کو یاد کرتے ہیں۔
آپ اپنے بچے کو سکول داخل کروانے جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ معیاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے مواقع قلیل ہیں۔
 ویسے اگر آپ عام طور پہ مشاہدہ کریں تو محسوس ہو گا کہ ہر گلی کوچے میں متعدد تعلیمی ادارے ہیں، مگر پورے ملک میں معیاری تعلیم کا فقدان ہے۔
آپ بیمار ہو جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہسپتالوں میں بیڈز کی کمی ہے۔ اور تو اور ڈاکٹروں اور نرسوں کی کمی ہے۔ اور جو ڈاکٹرز اور نرسیں ہیں بھی، ان میں فہم کی قلت ہے۔ اسی لئے ڈاکٹر دوا سے ذیادہ دعا پہ یقین رکھتے ہیں۔
ملک میں میڈیکل سہولیات کی قلت کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کی جب بھی وزیر اعظم یا ان جیسے کسی بھی شریف انسان کا دل پاکستانی عوام کی عزت افزائی کے بوجھ تلے دب کے صحیح طرح کام کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے، تو وہ ’پنجاب انسٹیٹوٹ آف کارڈیالوجی‘ جانے کی بجائے انگلستان جاتے ہیں اور اس دوران پاکستانی عوام فراخ دلی سے ان کی دختر نیک اختر اور ذوجہ کو یاد کرتے رہتے ہیں۔
بس صاحب قصہ مختصر ہمارے عظیم ملک میں ہر چیز کی ہی قلت ہے سوائے تین چیزوں کے۔ ان میں سے ایک چیز کا ذکر تو میں نے بارہا اس تحریر میں کر دیا، یعنی ذخیرہ الفاظ میں گالیوں کی کثرت۔
 اس جنس میں ہم اتنے خود کفیل ہیں کہ شائد اگر ہم گالیاں ایکسپورٹ کرسکیں تو ایک سے دو برس کے اندر اندر ہم ایک مقروض مملکت کی بجائے، قرضے دینے والے ممالک کی فہرست میں آ جائیں۔
اس کے بعد جس چیز میں ہم خود کفیل ہیں وہ ہے ٹیلینٹ۔ ہمارے ملک میں کرکٹ کا بہت ٹیلنٹ ہے، گو کہ ہم ہر عالمی مقابلے میں ہار جاتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ ہم آج تک ورلڈ کپ کے کسی میچ میں بھارت کو ہرا نہیں سکے، مگر ٹلینٹ کی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں۔ 
ہر شعبہ ذندگی میں ہمارے ہاں ٹیلینٹ بھرا پڑا ہے، مگر قلت ہے تو اس ٹیلینٹ کو استعمال کرنے کے مواقع کی قلت ہے۔ دیکھئے نا وہی ڈاکٹر جو پاکستان میں اپنے ٹیلینٹ کو صرف دعائیں سیکھنے پہ ضائع کرتا ہے، وہی ڈاکٹر بیرون ملک جا کے دوا کی فضیلت سیکھ کے، اپنے ٹیلینٹ کی بدولت انسانی ذندگیاں بچاتا ہے۔
اور تیسری چیز جس میں ہم خود کفیل ہیں، وہ ہے شیطانی دماغ۔ آپ نہیں مانتے؟
 مگر غور فرمائیے اگر ہمارے ہاں شیطانی دماغ کی کثرت نہ ہوتی، تو ہم کیسے اس دنیا کے مذہبی انتہا پسندی اور دھشتگردی کے چیمپیئن بنتے؟
  اب آپ کہیں گے کہ یہ جھوٹ ہے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی کا چیمپئین سعودی عرب ہے۔ مگر جناب مذہبی انتہا پسندی کے میدان میں سعودی عرب کی وہی حیثیت ہے جو کرکٹ کے میدان میں انگلستان کی۔ یعنی جیسے کرکٹ کا کھیل گو انگلستان میں ایجاد ہوا، مگر اس کھیل کی عالمی چیمپئین شپ ہمیشہ انگلستان کے غلام ممالک، یعنی ہندوستان، پاکستان، آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز وغیرہ کے نام ہی رہی۔
اسی طرح بیشک مذہبی انتہا پسندی، اور مذہب کے نام پہ دھشتگردی، سعودی عرب کی میراث ہیں، مگر چیمپئین شپ سعودی عرب کے غلاموں یعنی افغانستان، سوڈان، یمن اور پاکستان کے پاس ہی رہی ہے۔ 
اور آپ یہ نہ سمجھیں کہ مذہبی انتہا پسندی کی چیمپئین شپ جیتنے کاہمیں کوئی فائدہ نہیں۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ دنیا کے سات ارب سے ذیادہ لوگ ہمیں ہمیشہ اپنی نیک تمناوں میں یاد رکھتے ہیں اور ہماری قوم کی ماوں بہنوں کی گدھوں اور کتوں کے ساتھ جنسی تسکین کو یقینی بناتے ہیں۔
جو بیش قیمت تجربہ ہمیں مذہبی انتہا پسندوں کی تربیت سے حاصل ہوا ہے، اسے بروئے کار لاتے ہوئے اب ہم کرکٹ ٹیم کی بھی ٹریننگ کروا رہے ہیں تاکہ ہمارے کرکٹردنیا میں پاکستان کا نام روشن کر سکیں۔
 اسی لئے اب کرکٹ ٹیم کا انتخاب انظمام الحق کریں گے اور ہمیشہ کی طرح، عالمی انتہا پسندی کے چیمپئن، طارق جمیل، ٹیم کے چیف مینٹر ہوں گے۔ اور ٹیم کے کوچز میں وہ بھی شامل ہوں گے جنہوں نے طارق جمیل اور حافظ سعید جیسے دھشتگردی کے عظیم چیمپئن پیدا کئے۔

تو جناب اگر آپ کرکٹ کے دلدادہ ہیں تو آئندہ جب پاکستان کرکٹ ٹیم ہارے تو برائے مہربانی اپنی گالیوں میں طارق جمیل اور حافظ سعید سمیت ان سب لوگوں کے گھروں کی خواتین کوبھی یاد رکھئے گا، جن لوگوں، یا ان کے ادارے، کا نام سر عام لینے کی پاداش میں آپ کی نعش غائب بھی ہو سکتی ہے۔
 یقین کیجئے بہت مشکل سے روکا ہے منہ پہ آتے آتے یہ مقدس نام، ورنہ میرے اندر کا پنجابی مجھے کہے جا رہا ہے کہ ’لے ان کہی دا ناں‘۔ 

No comments:

Post a Comment

You are free to comment, without logging-in. But please do spare me the effort of not approving your ads.