Search This Blog

Tuesday 27 September 2016

تنگ نظری کا نظریہ

wajahat-masood-
sajid-ali-
چند روز قبل، وجاہت مسعود صاحب نے دو قومی نظرئیے کی صحت پہ چند سوالات اٹھائے ۔ میں تمام سوالات کی بات نہیں کروں گا، مگر ایک سوال نہائت توجہ طلب تھا۔ ہندوستان میں صرف ہندو اور مسلم دو قومیں کیوں تھیں؟ ہندوستاں میں بسنے والے مسیحی، پارسی اور سکھ قوم کا درجہ کیوں نہیں رکھتے تھے؟
۲۷ ستمبر کو ڈاکٹر ساجد علی نے اپنی تحریر میں اس سوال پہ اعتراض اٹھاتے ہوئے معقف اختیار کیا ہے کہ صرف ہندو اور مسلمان قوم کا درجہ اس لئے حاصل کر سکے کیونکہ کچھ علاقہ جات میں ان مزہبی گروہوں کی اکثریت تھی، جبکہ

دوسرے مزہبی گروہ پورے ھندوستان میں بکھرے ہوئے تھے۔
مجھے مندرجہ بالا سوال و وضاحت دونوں پہ اعتراض اس لئے ہے کہ حضور اقوام کی شناخت لسان، رنگ، نسل اور تہزیب و تمدن کی بنیاد پہ ہوتی ہے نا کہ اعتقادات کی بنیاد پہ۔ مثال کے طور پہ، اے آر رحمان (بھارتی کمپوزر) تامِل ہے، بیشک وہ مسلمان ہے۔ یا سکھر میں رہنے والا رام دین سندھی ہے، گو کہ وہ ہندو عقائد کا پیروکار ہے۔
اس سائٹ کا قاری شائد اتنا سمجھدار ہے کہ مجھے اپنی مندرجہ بالا بات واضع کرنے کے لئے مزید ۵۰۰ امثال لکھنے کی ضرورت نہیں۔
اب جب میں نے، اپنے نقطہ نظر کے مطابق، مزہب اور قوم کا فرق واضع کر دیا ہے، تو آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ ۱۹۴۷ سے پہلے ہندوستان میں واقعی ہی دو قومیں بستی تھیں۔ لیکن ان میں فرق رنگ، نسل، لسان، یا مزہب کا نہیں تھا۔ یہ فرق سوچنے کے انداز کا تھا۔ آسان الفاظ میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ھندوستان کی آبادئ کا ایک حصہ قدامت پسند تھا۔ جبکہ دوسری قوم ترقی پسند تھی۔ میرے دو قومی نظریئے کی بنیاد تاریخی حقائق پہ قائم ہے۔ سب سے آسان مثال آپ کو تحریک آزادی ھند میں سرکردہ دو جماعتوں کے لیڈران کے لباس اور طرز ذندگی سے ملے گی۔ آپ اگر اس بات سے متفق نہ ہوں تو کانگریس اور مسلم لیگ کے لیڈران کی برطانیہ کے دوروں کی تصاویر دیکھ لیجئے۔
اب آپ میں سے بہت سے لوگ کہیں گے کہ روائتی لباس پہننے میں کیا برائی ہے؟ اور میں آپ سے متفق ہوں۔ لیکن اگر آپ روائت اور قدامت پسندی کا فرق سمجھ لیں تو یہ ابہام بھی ختم ہو جائے گا۔ ہمارے ہاں جب کوئی مہمان آئے تو ہم اس کی خدمت کرتے ہیں۔ یہ ہماری روائت ہے۔ لیکن جو لوگ ٹوتھ برش کے استعمال کو طرق کر کے آج بھی درخت کی ٹہنیاں اس لئے منہ میں لئے گھومتے ہیں کیونکہ ۱۵۰۰ برس پہلے برش نہیں تھا، وہ قدامت پسند ہیں۔
روائت اور قدامت پسندی میں فرق یہ ہے کہ روایات وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ہیں۔ اگر ۳۰۰ برس پہلے دلہن کو ماں باپ کے گھر سے رخصتی کے بعد ڈولی میں بٹھا کے لاتے تھے تو آج بھی حسب روائت دلہن ہی رخصت ہوتی ہے، مگر ڈولی کی جگہ موٹر کار استعمال ہوتی ہے۔ اگر آپ برصغیر کی آزادی کے بعد پاکستان اور ھندوستان کی اس مختصر سی تاریخ کا جائزہ لیں تو آپ نوٹ کریں گے کہ ۱۹۷۰ کے اوائل تک، پاکستان بیشتر شعبہ جات میں ہندوستان سے آگے رہا ہے۔ جب ھندوستان ابھی مکیش اور طلعت کے ھی سروں میں گم تھا، پاکستان میں احمد رشدی کا بول بالا تھا۔ آپ سب کو نازیہ حسن تو یاد ہی ہوں گی۔ جب ہندوستان مغل اعظم کی عظمت کے گیت گا رہا تھا، تو پاکستان کی فلم انڈسٹری سوسائٹی گرل کے رقص میں مشغول تھی۔ جب پاکستان نے شناختی کارڈ کا اجرا کیا تو صرف ہندوستان ھی نہیں، بہت سے ممالک کو پیٹھ دکھا دی۔ ویسے تو ضیاؑ محی الدین بھی اس وقت انگریزی فلموں میں کام کرتے تھے جب بمبؑی کی انڈسٹری ہندی ایجاد کرنے میں مصروف تھی۔ جب پاکستان کے نوجوان اسلام آباد اور کراچی کی سڑکوں پہ بریک ڈانس کرتے تھے، تو ہندوستان میں لوگ ابھی ڈسکو ڈانس کو نیا ٹرینڈ سمجھکر مست ہوئے جاتے تھے۔ پاکستان وہ دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے ٹی وی پہ پتلی تماشہ دکھایا۔ اگر آپ کو کلیاں نام کا پروگرام یاد ہو۔ اور جناب میں یہ معصوم مثالیں اس لیئے دے رہا ہوں، تاکہ بات بھی سمجھ آ جائے اور دل آزاری بھی نہ ہو کسی کی۔
میرا مقصد ہندوستان اور پاکستان کا مقابلہ نہیں۔ مقصد یہ ہے کہ آزادی سے پہلے جن دو قوموں کا تذکرہ ہوتا تھا، وہ صرف خیالات کی بنیاد پہ ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔ تو جناب وجاہت صاحب، آپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ پاکستان میں آج بھی دو قومیں ہیں؛ ترقی پسند اور قدامت پسند۔ حالات کچھ ایسے ہیں کہ ۱۹۷۰ کے اوائل سے قدامت پسند لوگوں کو شہ دی جانے لگی اور ۱۹۷۷ کے بعد قدامت پسندوں کو ترقی پسند لوگوں پہ مسلط کر دیا گیا۔ اور یہی وہ منحوس قوتیں ہیں، جنہوں نے دو قومی نظریئے کو ہندو مسلمان کا جھگڑا بنا دیا ہے۔ پاکستان کی ترقی پسند قوم کے تابوت میں ایک بڑا کیل موجودہ آئین کی شکل میں گاڑا گیا۔ اگر پاکستان کی پہلی کابینہ میں متعدد غیر مسلم شہری شامل تھے، تو آج کے اس نام نہاد جمہوری آئین میں تو واضع پابندی ہے غیر مسلم شہریوں پہ کہ وہ صدر یا وزیراعظم کا عہدہ حاصل بھی کر سکیں۔
تو حضرت اگر ہم قدامت پسند پاکستانیوں کو ملک کی لگام نہ تھماتے، تو شائد اس وقت سے پہلے ہی ہمیں دو قومی نظریہ سمجھ آ گیا ہوتا۔ شائد ہم یونیورسٹیوں میں ڈگریاں بانٹنے کی بجائے اپنے بچوں میں علم بانٹ رہے ہوتے۔ شائد ہم اپنی اولاد کو موت کی عظمت کا سبق دینے کی بجائے ذندگی کی قدر سکھا رہے ہوتے۔ شائد ہم حافظ سعید کی بجائے ڈاکٹر عبدالسلام کو عالم کہتے۔ اگر پاکستان کی باگ ڈور قدامت پسند اور جاہل لوگوں کے ہاتھ نہ دی جاتی تو شائد ملکی سیاسی حالات پہ تبصرہ کرنے کے لئے ہمیں بھانڈ اور مسخروں کی ضرورت نہ پڑتی۔ ترقی پسندانہ سوچ، برصغیر کی آذادی سے پہلے بھی جاہلوں اور قدامت پسند لوگوں کے عتاب کا شکار تھی اور آج بھی صدارتی کرسی پہ قبضہ درخت کے پتوں سے تن ڈھانپنے والوں کا ہے۔

No comments:

Post a Comment

You are free to comment, without logging-in. But please do spare me the effort of not approving your ads.