ھمارے ہاں اگر کوئی لڑکی دوپٹہ سر پہ لینے کی بجائے گلے میں
ڈال کے گھر سے نکلے تو محلے کے تمام بزرگ اور جوان، بغیر کسی کے کہے ’از خود‘ اس
بات کا نوٹس لیتے ہیں کہ فلاں صاحب کی بیٹی بیراہروی کا شکار ہے۔ مزے کی بات یہ ہے
کہ لڑکی کے ماں باپ کو شائد اپنی بیٹی کے دوپٹہ اوڑھنے کے انداز پہ کوئی اعتراض نہ
ہو، مگر ان خود مقررہ اصلاح کاروں کو ضرور ہو گا۔
اب ان اخلاقیات کے پہریداروں سے کوئی پوچھے، کہ بھیئا یہ
جو وقت آپ کسی کی بیٹی کا دوپٹہ چیک کرنے پہ ذائع کر رہے ہیں اس وقت کو اپنے گھر کا نلکا صحیح کرنے پہ کیوں نہیں سرف کرتے؟
جو وقت آپ کسی کی بیٹی کا دوپٹہ چیک کرنے پہ ذائع کر رہے ہیں اس وقت کو اپنے گھر کا نلکا صحیح کرنے پہ کیوں نہیں سرف کرتے؟
بات یہیں ختم نہیں
ہوتی۔ ایک دن یہ اخلاقیات کے ٹھیکیدار اکٹھے ہو کے لڑکی کے ماں باپ کو طلب کر کے
حکم سنا دیتے ہیں کہ ان کی بیٹی آوارہ ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا
دوپٹہ اس کے گلے سے سر تک پہنچائیں، یا موجودہ جگہ پہ دوپٹے کا پھندا بنا دیں۔ اور
خیال رہے کہ اس حکم کی تعمیل نہ کرنے پہ لڑکی کے والدین کو سزا بھگتنی پڑتی ہے۔
تو صاحب جس معاشرے کا ہم حصہ ہیں، اس کا نظام بھی کچھ ایسا
ہی ہے۔ چند دن قبل خبروں میں سنا کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے تمباکو نوشی اور شیشے کی
درامد کے خلاف ’از خود‘ نوٹس کی سماعت کی۔ گھبرائیے نہیں بات اس شیشے کی نہیں جس
میں آپ اپنا مکھڑا دیکھتے ہیں۔
یہ شیشہ عربیوں کے حقے کو کہتے ہیں۔ اس حقے میں، ہمارے
روائتی حقے کے بر عکس، کڑوے تمباکو کی بجائے ذائقے دار تمباکو استعمال ہوتا ہے۔
میں شیشہ استعمال نہیں کرتا، مگر حیرت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کو
عربیوں کی مذہبی انتہا پسندی کی درامد پہ کوئی اعتراض نہیں۔ مدارس میں بچوں کو حبث
بےجا میں رکھنے پہ کوئی تکلیف نہیں۔ ایمن الزواھری کی درامد اور برامد پہ کوئی
شکوہ نہیں۔ ملا عبدالعزیز کے خلاف ریاست بیانات کا نوٹس نہیں۔ عربیوں کی مالی امداد سے چلنے والی دھشتگرد تنظیموں کی خبر نہیں۔ مذہب
کے نام پہ غیر مسلم پاکستانیوں سے ہونے والی ذیادتیوں کی فکر نہیں اور جب آپ کو
پاکستان کے اندرونی مسائل میں سعودی عرب کی مداخلت قبول ہے تو اس بیچارے شیشے کا
کیا قصور ہے؟
ایک خیال
یہ آیا کہ شائد کسی معزز جج کا بیٹا یا بیٹی ڈانس پارٹی میں شیشہ پیتے پکڑی گئی
ہے، اس لئے شیشے کی کمبختی آ گئی ہے؟ لیکن
یہ ناقص خیال تھا۔ عزت معاب جج صاحبان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں
کی حرکات کا ’از خود‘ نوٹس لیں۔ آپ کو یاد ہی ہو گا کہ چیف جسٹس افتخار چوہدری
صاحب تو ملک میں انصاف کے بٹوارے میں اتنے مصروف تھے کہ انہیں یہ بھی پتہ نہیں چلا
کہ ان کا بیٹا کسی کے پیسوں سے مانٹیکارلو میں عیاشیاں کرتا رہا تھا۔ ارے صاحب جج
لوگ اتنے فارغ نہیں ہوتے کہ بچوں کی تربیت پہ وقت ضائع کریں۔
تو پھر
ماجرا کیا ہے؟
کافی سوچ
بچار کے بعد سمجھ آیا کہ ہماری اردو کمزور ہے۔ ہمیں ’از خود‘ کا مطلب ہی نہیں
معلوم۔ دیکھئے نا صاحب، جیسے عید قرباں پہ
آپ کسی کے گھر گوشت بھیجیں اور جواب میں گوشت نہ آئے تو ’از خود‘ اس شخص کے لئے
منہ سے گالیاں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔
یا عید
کے ہی دنوں میں اگر آپ حد سے ذیادہ گوشت کھا جائیں تو بدہزمی کی وجہ سے کئی دفعہ
بیت الخلا پہنچنے سے پہلے ہی ’از خود‘ رفا حاجت ہو جاتی ہے، اسی طرح جو بھی کام
سوچے سمجھے بغیر ہو جائے اس کے لئے ’از خود‘ کی اصطلاح استعنال کی جاتی ہے۔
لگتا ہے،
ملک میں انصاف مہئیا کرنے میں بےحد مصروف سپریم کورٹ کو بھی پتہ ہی نہیں چلا اور
عید قرباں کے فوراً بعد، بد نظمی کی وجہ سے، شیشے کے خلاف انجانے میں سپریم کورٹ
کو ’از خود‘ ہو گئی!
No comments:
Post a Comment
You are free to comment, without logging-in. But please do spare me the effort of not approving your ads.